Aberration is the norm



THE twists in the case of Farzana who was bludgeoned to death outside the Lahore High Court increasingly feel like film noir. Her husband killed his first wife and was forgiven by his son. She was killed by her relatives, who had earlier killed her other sister and were forgiven by her son. Money involved, compromises involved, betrayals involved, moral questions involved, and now, belatedly, outrage involved.
The act of Farzana’s murder was met with shock based on three perceived aberrations. First, the instruments of death were bricks, evoking the image of the medieval punishment of stoning to death for adultery. The second was that it happened just outside the premises of a court — the place for dispensation of justice, presumably a secure zone. And the third is there were witnesses who did not try to prevent the crime. Barring these, it was just another routine honour killing that we now take in our stride.
However, all three are not aberrations. There are four previous known cases of women being killed with stones for sexual relations, and thousands more murdered with different weapons for the same crime. Nor is it the first time such crimes were perpetrated near or within a court premises. In 1998, Rifat Afridi and Kanwar Ahsan were shot in a Karachi court for contracting a marriage by choice; they survived. In 2012, Raheela Sehto was killed for the same reason inside a court in Hyderabad. Earlier this year, Humaira Ashraf was killed, weeks after her marriage, by her brother inside the court premises in Gujranwala.

Impunity is not specific to cases of violence against women.


Finally, there have been many cases of people becoming spectators in violence against women. In 2010, 14 people stripped and thrashed a mother and daughter in front of the whole town of Shehr-i-Sultan near Mirwala. In 2011, Shahnaz Bibi was paraded naked across Neelor Bala in Haripur. No one stepped forward to stop the abuse in either case. In countless jirga judgements, entire communities are complicit in crimes passed off as custom. Domestic violence is tolerated.
The underlying impunity context has evolved over decades. When Samia Sarwar was shot dead by her family in Hina Jillani’s office in 1999, there were many witnesses willing to record testimonies, including a staffer kidnapped by them and Hina Jillani herself, one of the leading human rights lawyers in Pakistan. It should have been an open-and-shut case. It wasn’t. The family walked free; the father went on to head the Sarhad Chamber of Commerce; the uncle was forgiven by the family; the killing was called accidental, and the court refused to let Hina Jillani fight the case. Even the parliamentary resolution was defeated with a thumping majority.
Of course, impunity is not specific to cases of violence against women. If (the then former) Prime Minister Nawaz Sharif’s lawyer Iqbal Raad was killed while defending his case, and Benazir Bhutto’s case lawyer Chaudhry Zulfiqar was killed, with no conviction in either murder, it may be pointless to lament about impunity in the case of Rashid Rehman, who was representing a mere university lecturer.
Rehman’s assassination for his brave defence of Junaid Hafeez has parallels to Farzana’s case. Both signal laws that are on the statutes (blasphemy law in the former, Hudood Ordinance in the latter), in which people remain under trial for years but no one is punished by the state with the prescribed forms of death. In both cases, people themselves inflict the legally prescribed punishment through legally proscribed ways of vigilante action. And they get away with it because of the perceived religious and social pardon.
Impunity compromises the state’s legitimacy. The state is not a monolith. Its composite institutions can and do work. There are signs of change. New and improved laws have been legislated. The police are becoming more responsive in swara cases. But with less than a 3pc conviction rate in honour killings and rapes, deterrence is non-existent. Protest against the state for failing to protect the people is not a demand for security guards for everyone. It is a demand for the revocation of impunity.
Tougher is the fact that ‘ordinary’ people kill women in their family with societal consensus, and collude in premeditated acts of murder on blasphemy cases. It has nothing to do with poverty and illiteracy. Samia’s family is part of the elite. The aggressors in Rehman’s case comprised educated lawyers.
In Farzana’s case, this is the third woman’s murder in one family. Intolerance and violence seem to be the only factors to have had a trickle-down effect. But nuanced understandings consolidate into cataracts of cynical acceptance. So, after the outrage, what next?
The writer is a researcher. nazishbrohi.nb@gmail.com , Twitter: @Nazish_Brohi
http://www.dawn.com/news/1109883/aberration-is-the-norm
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~

سزا

وہ کافرہ تھی؟ نہیں! اہل کتاب میں سے تھی؟ نہیں! ہندو تھی؟ نہیں! پارسی تھی؟ نہیں! وہ مسلمان تھی۔ نبی آخرالزمانﷺ کی اُمت میں سے تھی۔ 
اسے مارنے والے امریکی تھے؟ نہیں! بھارتی تھے؟ نہیں! غیر مسلم تھے؟ نہیں! وہ سب مسلمان تھے! 
اسے کہاں مارا گیا؟ مقبوضہ کشمیر میں؟ نہیں! اسرائیل میں؟ نہیں! بھارتی گجرات میں؟ نہیں! مشرقی پنجاب میں؟ نہیں! غزہ کی پٹی میں؟ نہیں! برما میں؟ نہیں۔ اسے اس ملک میں مارا گیا جسے اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے‘ جس کے بارے میں تواتر سے کہا جاتا ہے کہ ستائیسویں رمضان المبارک کو وجود میں آیا تھا۔ جس کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ واحد مسلم ملک ہے جو نظریاتی بنیادوں پر تخلیق ہوا۔ جہاں اسلامی نظام کے بارے میں آئے دن تحریکیں چلتی ہیں‘ جلوس نکلتے ہیں‘ شاہراہیں بند ہو جاتی ہیں۔ 
محمد رسول اللہﷺ کی یہ امتی کیا تنہا ماری گئی؟ نہیں! اس کے بطن میں اس کا جائز بچہ تھا‘ جو ذی روح تھا! اُسے بھی ساتھ ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 
اس مسلمان خاتون کو دنیا کی واحد اسلامی نظریاتی مملکت میں کس طرح قتل کیا گیا؟ کیا اُسے گولی ماری گئی؟ نہیں! کیا تلوار سے سر قلم کیا گیا؟ نہیں! کیا اُسے تختۂ دار پر لٹکایا گیا؟ نہیں! کیا اُسے برقی کرسی پر بٹھا کر بٹن آن کر دیا گیا؟ نہیں! کیا اُسے زہرکا ٹیکہ لگا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سلا دیا گیا؟ نہیں! کیا اُسے دیوار میں چنوا دیا گیا؟ نہیں! کیا اسے مینار سے نیچے پھینکا گیا؟ نہیں! اُسے اینٹوں اور پتھروں سے مارا گیا۔ مسلسل مارا جاتا رہا، یہاں تک کہ اس کا سر ریزہ ریزہ ہو گیا‘ اس کا حمل ضائع ہو گیا اور وہ زندگی کی سرحد سے گزر گئی! 
جب اسے سنگ باری کا نشانہ بنایا جا رہا تھا‘ کیا وہ اس وقت تنہا تھی؟ نہیں! کیا یہ واقعہ کسی دور افتادہ ویرانے میں پیش آیا؟ نہیں! کیا یہ سانحہ کسی چھوٹے قصبے یا قریے میں واقع ہوا؟ نہیں! یہ سب سے بڑے صوبے کے سب سے بڑے شہر کے سب سے زیادہ پُررونق اور پُرہجوم حصے میں پیش آیا۔ اس وقت وہاں بہت سے لوگ موجود تھے۔ یہاں تک کہ پولیس کے افراد بھی وہیں تھے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا۔ کسی نے بھی مسلمان خاتون کو بچانے کی کوشش نہیں کی! 
کیا اس مسلمان خاتون نے کوئی جرم کیا تھا؟ نہیں! کیا یہ زنا کی مرتکب ہوئی تھی؟ نہیں! کیا یہ چوری ڈاکے یا قتل کی مجرم تھی؟ نہیں! اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی جس کی اس کے مذہب‘ اس کے قانون نے اسے اجازت دی ہوئی تھی! 
کیا اس وحشیانہ قتل پر کسی مذہبی رہنما نے احتجاج کیا؟ کیا کسی مذہبی جماعت نے اس سانحہ پر کوئی ردِعمل ظاہر کیا؟ نہیں! کیا میڈیا کے وہ ملازم جو بزعمِ خود مذہب کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں‘ جن کی آنکھوں کو ہر شے میں فحاشی نظر آتی ہے اور جن کے ایک ایک کالم میں بیس بیس مرتبہ ''میں‘‘ کا لفظ ہوتا ہے‘ اس بربریت پر کچھ بولے یا انہوں نے کچھ لکھا؟ نہیں! 
کیا ان مذہبی جماعتوں نے‘ جو چیچنیا سے لے کر برما تک اور فلسطین سے لے کر افغانستان تک‘ ہر خطۂ زمین کے مسلمانوں کے قتل پر ہڑتالیں کرتی ہیں‘ احتجاج کرتی ہیں‘ جلسے برپا کرتی ہیں اور دھرنے دیتی ہیں‘ اس پاکستانی خاتون کے بہیمانہ قتل پر کوئی احتجاج کیا‘ کوئی جلسہ کیا‘ کوئی جلوس نکالا‘ کوئی قراردادِ مذمت پیش کی؟ نہیں! ان مذہبی رہنمائوں نے اور ان دینی جماعتوں نے خواتین پر ہونے والے ظلم کے خلاف کبھی ایک لفظ نہیں کہا۔ اس ملک میں آئے دن کم سن بچیوں کے نکاح ونی اور سوارہ کی رسموں کے تحت عمر رسیدہ مردوں سے کر دیے جاتے ہیں‘ کاروکاری میں عورتوں کو ہلاک کیا جاتا ہے‘ یہاں تک کہ عورتوں کو کتوں کے ذریعے بھی مارا گیا اور صحرا میں جنازے کے بغیر دفن کیا گیا‘ زمیندار اور ان کے کارندے اکثر عورتوں کو برہنہ کر کے گلیوں میں پھراتے ہیں، لیکن کسی مذہبی رہنما‘ کسی عالم دین‘ کسی دینی جماعت نے ان غیر شرعی جرائم کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھائی۔ 
کیا کم سن بچیوں کے نکاح کو جائز قرار دینے اور دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت کو حرفِ غلط کی طرح منسوخ کرنے والوں نے اس گھنائونے جرم پر کسی قسم کی کوئی رائے دی؟ نہیں! عورتوں کے ساتھ ناانصافی کا مسئلہ ان کے دائرہ کار سے باہر ہے! 
کیا اس بات کا امکان ہے کہ منتخب اداروں میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی کی جائے؟ نہیں! ماضی میں کوشش کی گئی لیکن اکثریت اس قانون سازی کے خلاف متحد ہو گئی! 
کیا حضرت مولانا مفتی عمران خان مد ظلہم العالی نے اس دلگداز واقعہ پر کسی افسوس کا اظہار کیا؟ نہیں! وجہ ظاہر ہے‘ چونکہ اس خاتون کو قتل کرنے والے امریکی نہیں تھے‘ نہ ہی یہ کسی ڈرون حملے کا نشانہ بنی‘ نہ ہی اس کا قبائلی علاقے سے تعلق تھا‘ اس لیے آپ نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا! حضرت مولانا مفتی عمران خان مدظلہ‘ جو اہلِ مدرسہ کے دستِ راست ہیں اور عنقریب تحریک انصاف کو جے یو آئی میں ضم کر دیں گے‘ کسی پاکستانی فوجی یا پاکستانی مرد یا پاکستانی عورت یا پاکستانی بچے کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار نہیں کرتے! ابھی مئی کے پہلے ہفتے کے اختتام پر نو پاکستانی فوجی بم دھماکے میں شہید کیے گئے، عمران خان نے اُف تک نہ کی۔ لیکن جیسے ہی دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی عساکر حرکت میں آئے‘ خان صاحب نے واویلا مچا دیا اور اپنے ملک کی فوج پر گھنائونا‘ شرم ناک اور بے بنیاد الزام لگایا کہ وہ امریکہ کی جنگ لڑ رہی ہے۔ فرماتے ہیں کہ شمالی وزیرستان کو الگ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ یہ وہ صاحب کہہ رہے ہیں جنہوں نے کبھی قبائلی علاقوں کو مین سٹریم میں ضم کرنے کی بات کی‘ نہ وہاں کی زراعت، تعلیم یا صنعت و حرفت کے بارے میں کبھی کوئی منصوبہ پیش کیا۔ رشتہ داری کی وجہ سے جذباتی تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ وہاں کے جرگہ سسٹم کو‘ جس کا شریعت سے تعلق ہے نہ قانون سے‘ آئیڈیل بنائے ہوئے ہیں۔ قیاس کہتا ہے کہ وزیر اعظم بننے پر پورے ملک میں عدالتوں کے بجائے جرگہ سسٹم نافذ کر دیں گے خاص طور پر وہ شق جس کے تحت ''مجرموں‘‘ کے رہائشی مکانات بلڈوزروں سے مسمار کیے جاتے ہیں! 
کیا اسلام کے اس قلعے کو‘ جہاں نبی آخرالزمانﷺ کی امت کی بیٹیاں‘ بہنیں اور مائیں وحشیانہ ظلم کا رات دن شکار ہو رہی ہیں‘ جہاں ان کے حقوق ہیں نہ ان کی حفاظت‘ جہاں وہ بوڑھوں سے بِن پوچھے باندھ دی جاتی ہیں‘ جنازوں کے بغیر صحرا میں دفن کر دی جاتی ہیں‘ گلیوں میں برہنہ پھرائی جاتی ہیں‘ زبردستی زیادتی کا شکار ہونے کے باوجود‘ جیل میں پھینک دی جاتی ہیں اور جہاں کسی جرم کے بغیر اینٹوں سے کچل دی جاتی ہیں، یہاں تک کہ ان کے پیٹوں میں سانس لینے والے بچے بھی موت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں‘ کیا اس ملک کے بے حس باشندوں کو‘ ان قاتلوں کو، ان قاتلوں کے محافظوں کو کوئی سزا نہیں ملے گی؟ ضرور ملے گی! کیا یہ بُش اور اوباما اپنی قوت سے حکمران بنے تھے؟ کیا وہ طاقت جو قبر میں بچھو سانپ اور آگ پیدا کر سکتی ہے‘ قبر سے باہر مودی کو اقتدار نہیں دے سکتی؟ 
http://dunya.com.pk/index.php/author/muhammad-izhar-ul-haq/2014-06-01/7286/44202450#tab2


* * * * * * * * * * * * * * * * * * *
Humanity, Religion, Culture, Ethics, Science, Spirituality & Peace
Peace Forum Network
Over 1,000,000 Visits
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *

Featured post

Front Page

Generally it is believed that in Islam the women are mistreated, their status is lower than men and they do not enjoy equal rights. ...