..
THE Mir Hazar Khan police aren’t inhospitable, at least not in normal circumstances. But Wednesday wasn’t a routine day at the police station in Muzaffargarh’s Jatoi tehsil. Punjab’s top spy was trying to determine the circumstances that had forced Amina Mai to burn herself to death just outside the police station a week earlier. He was also focusing on the police’s role in the release, without a proper probe, of the man Amina accused of raping her on Jan 5. Another team headed by the top provincial investigator was due to arrive the next morning to probe the rape case on the apex court’s orders.
That wasn’t all. Three of the policemen’s colleagues facing arrest — a DSP, an inspector and a sub-inspector — are fugitives from the law. Another DSP is on temporary bail and ASI Rana Zulfiqar Ali, who was investigating the 18-year-old’s complaint but had evidently freed the suspect without a proper probe, is in jail. Against this backdrop, it was but natural for the police to view a journalist in their midst as an unwanted intrusion. “Not now,” said an uncommunicative sentry, pushing us out of the building and bolting the gate behind us.
Outside the police station — 40km from Muzaffargarh — the spot where the Class XI student had set herself on fire after the release of the key suspect doesn’t bear any sign of her tragic death. Eyewitnesses are hard to find. “I saw the girl sprinkling petrol on her scarf from a can handed by her mother and lighting herself,” Tanveer Ahmed, whose father owns a dhaba a few metres away, told Dawn. He was the only person in the area who claimed to have witnessed the incident.
“A couple of TV cameramen were recording the event and continuously encouraging her to burn her scarf if she wanted justice. She was in flames within a fraction of a minute.” Tanveer wasn’t sure if the cameramen, who apparently rode away on their motorbike(s) once things got uglier, had come there on their own or had accompanied the girl.
Amina had alleged that the rape took place in the jungle when she was walking home from the doctor’s with her younger brother. The place isn’t far from the narrow broken and dusty road that takes you to her village, Lundi Pitafi, in 30-35 minutes through fields, villages and small bazaars on both sides.
Murders are easy in Pakistan to wash away. Rapes are even easier to cover up. Every year, thousands of cases of gang rape and rape are registered and the culprits ‘traced’, but only a few perpetrators are convicted because of the investigators’ prejudice against women, corruption, lack or destruction of evidence, police failure to have the victims medically tested or undergo DNA tests, untrained prosecutors and numerous investigation and legal shortcomings.
In Amina’s case, one or a combination of these factors could have played out in favour of her alleged tormentors. “It’s yet to be determined if the investigation officer mismanaged the case intentionally or was too incompetent to handle it,” a police official said privately.
At her home, her elder brother Ghulam Shabbir said his sister was an honourable woman. “[The main suspect’s] release was too much for her. In the court, my sister was jeered at by him and his brothers. They thrust sweets into her mouth. She couldn’t cope with her humiliation,” he said, pointing in the direction of her alleged tormentor’s house nearby. The house has been locked ever since he was rearrested and his brothers went into hiding.
Inside the house, Amina’s mother repeatedly demanded justice for her dead daughter. “If they don’t give us justice I’ll burn myself like her.” She denies she knew her daughter wanted to set herself ablaze. “She went to the police station to collect her clothes. I went along. When the SHO refused to see her, she asked me to bring back her clothes. I was only halfway inside when I heard her screams and looked back to see the flames burning her,” she recalled. She said she was not aware of the presence of cameramen at the spot.
On our way back, we chanced upon local politician Mohammad Sharif Kamboh. “There’s little doubt in my mind that something had happened between the suspect and the girl [on the day she said she was raped]. It is for the police to investigate the girl’s complaint and determine the nature and extent of the crime.” But the police failed her just as they have failed countless other women.
Dawn.com
کالج کی ایک اٹھارہ سالہ طالبہ جسے گھر جاتے ہوئے گینگ ریپ کیا گیا، زیادہ واضح دکھائی دے رہی ہے۔ آبروریزی کرنے والے مجرمان کا حشر اُس بلے کا سا نہ ہوا کیونکہ آمنہ بی بی کا تعلق ایک عام سے گھرانے سے تھا۔ اس کے لیے مختاراں مائی بھی کچھ نہ کرسکی حالانکہ اسے میڈیا کی کوریج ملتی ہے۔ مختاراں مائی کی مشرف دور میں آبروریزی کی گئی تھی لیکن جنرل صاحب کی حکومت میں خواتین کے معاملات کی مشیرنیلو فر بختیار نے اُس سنگین معاملے کو نظر انداز کردیا۔ ہمارے ملک میں تو ایسے واقعات خبر ہی نہیں بنتے، لیکن عالمی میڈیا کی طرف سے اس واقعے کو رپورٹ کرنے پر سب جاگ اٹھے۔
اس کے بعد ایک لیڈی ڈاکٹر شازیہ خالد کا کیس تھا۔ وہ بلوچستان کے شہر سوئی میں ایک پٹرولیم کمپنی میںملازم تھی۔ اُسے اُس ہوسٹل کے کمرے میں، جہاں وہ رہتی تھی، ریپ کیا گیا۔ تاہم اس کمپنی کے مالکوں اور مقامی پولیس نے کیس کو دبا دیا۔ مشرف اور اس کی کابینہ کے ارکان بھی اس کیس میں ہاتھ ڈالنے سے ہچکچا رہے تھے۔ حکومت دم سادھے کھڑی تھی جب غیر ت مند بلوچ قبائلیوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلہ سنا دیا اور سوئی جل اٹھا۔ اس کے بعد شازیہ کو وہاں سے جلدی سے نکال کر کسی دوسرے ملک منتقل کر دیا گیا۔ کیا یہ کہانی یہاں ختم ہوجاتی ہے؟ہر گز نہیں۔سندھ
کی سرزمین پر شازیہ خالد کے داد ا نے اُسے کاروکاری قرار دے دیا کیونکہ وہ ریپ ہو کر قبیلے کے لیے بدنامی کا باعث بنی تھی۔ اس کے برعکس مختاراں مائی کا کیس مختلف تھا۔ وہ پاکستان میں ہی رہی اور خود پر ہونے والے ستم کے خلاف قانونی جنگ لڑی۔ میڈیا کی وجہ سے وہ راتوں رات ویسی ہی شہرت پاگئی جیسی آج ملالہ کو ملی ہے۔ اُسے امریکہ آنے کی دعوت دی گئی ۔ وہاں اس نے خود پر ہونے والے ظلم اور پاکستانی معاشرے میں عورتوں پر توڑنے جانے مظالم پر بے دھڑک باتیں کیں۔ اس پر عالمی میڈیا نے اسے بے حد پزیرائی دی۔ اسے مغربی ممالک کی تنظیموں کی طرف سے بہت سے عطیات وصول ہوئے۔ اس رقم سے اُس نے ''مختاراں مائی سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن ‘‘ قائم کی۔ تاہم ستم یہ کہ جب آمنہ بی بی مختاراں مائی کی تنظیم کے پا س مدد کے لیے گئی تو اُسے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ اس پر مختاراں مائی کا کہنا ہے کہ اُن کی تنظیم اُسے رہائش فراہم کرسکتی تھی لیکن آمنہ چاہتی تھی کہ وہ آبروریزی کرنے والے مجرموں کو گرفتار کرنے میں اس کی مدد کرے اور یہ بات ان کی تنظیم کی پہنچ سے باہر تھی۔ اس پر آمنہ نے خود پر پٹرول چھڑکا اور آگ لگالی۔اس کے بعد حکومت کی آنکھیں کھلیں۔ پھر وزیر ِ اعلیٰ بھاگے بھاگے وہاں پہنچے اور اُس کے اہلِ خانہ کو پانچ لاکھ روپے پیش کیے ، لیکن اس رقم ، یا کسی بھی رقم ،سے آمنہ واپس اس دنیا میں نہیں آسکتی۔
اگر آمنہ بی بی مختاراں مائی جیسے مضبوط اعصاب کی مالک ہوتی تو وہ بھی اپنا کیس عالمی میڈیا کے سامنے پیش کرسکتی تھی۔ پھر شاید اُسے انصاف مل جاتا۔ بات یہ ہے کہ جب تک میڈیا کسی جرم کو کوریج نہ دے ، حکومت کو علم نہیں ہوتا اور جب تک حکومت، اور وہ بھی وزیر ِ اعظم یا کم از کم وزیر ِاعلیٰ بذات ِخود نوٹس نہ لیں، پولیس کارروائی کرنا حرام سمجھتی ہے۔ اب بھلا ریت کے صحرا میں پانی کے چند قطرے کس طرح ہریالی لا سکتے ہیں؟اس لیے ہم جس طرح کی گورننس کے عادی ہوچکے ہیں یا جس طریقے سے ہمیں انصاف ملتا ہے ، اس کے لیے ٹی وی کوریج ضروری ہے۔ دوسرا مشکل آپشن ریاستی نظم و نسق کو درست کرنا ہے کہ ارباب اختیار ایسا نظام وضع کریں کہ ہر کسی کو اس کی دہلیز پر انصاف مل سکے، لیکن اس طرح پھر حکمرانوں کی تشہیر نہیںہوتی اور نہ ہی ان کی خدا ترسی کے گن گائے جاتے ہیں ، چنانچہ ایسا نظام گیا بھاڑ میں...
یہ کم درجے کے انسانوں کے معاملات ایسے ہی چلنے ہیں، اس لیے واپس اعلیٰ درجے کے مور جس کی ہلاکت پر پولیس کی دوڑیں لگ گئیں، کی بات کرلیں۔ کوئی عجب نہیں کہ آئندہ بلّوں کو اپنے دانتوں اور پنجوں کا لائسنس حاصل کرنا پڑے کیونکہ اب قانون سازی لازمی ہوگی۔ لیکن قانون کا عام انسانوں سے کیا کاکام ؟ کچھ سال پہلے ایک اور عورت انصاف کے لیے مرگئی۔وہ شمائلہ تھی اور وہ فہیم کی بیوہ تھی۔ فہیم وہ شخص تھا جسے لاہور میں ریمنڈ ڈیوس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ امریکی حکومت نے مقتول کے ورثا کو خون بہا کے طور پر 1.4 ملین ڈالر ادا کیے اور اُس کے کچھ رشتے داروںکو امریکی شہریت بھی مل گئی۔ اس پر تمام اہل ِ خانہ خوش تھے سوائے شمائلہ کے ، کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ اُسے رقم نہیں، انصاف چاہیے۔ جب انصاف کی قیمت لگ جائے اور انسان ، اور وہ بھی ایک بیوہ کیا کرسکتی ہے۔ چنانچہ اُس نے زہر کھا کر خود کشی کرلی۔
آر سی ڈی روڈ پر ہونے والے حادثے میں درجنوں افراد جل کر راکھ ہوگئے کیونکہ ان میں ڈیزل سمگل ہورہا تھا اور اسے آگ لگ گئی۔ کیا حادثے سے پہلے کسی کوعلم نہ تھا کہ بسوں کی چھتوں پر جو ڈرم رکھے ہوتے ہیں ان میں سمگل شدہ تیل ہوتا ہے؟ ساغر صدیقی نے اسی لیے کہاتھا ؎
معبدوں کے چراغ گل کر دو
قلبِ انسان میں اندھیرا ہے
By Anjum Niaz dunya.com.pk
Dawn.com
کالج کی ایک اٹھارہ سالہ طالبہ جسے گھر جاتے ہوئے گینگ ریپ کیا گیا، زیادہ واضح دکھائی دے رہی ہے۔ آبروریزی کرنے والے مجرمان کا حشر اُس بلے کا سا نہ ہوا کیونکہ آمنہ بی بی کا تعلق ایک عام سے گھرانے سے تھا۔ اس کے لیے مختاراں مائی بھی کچھ نہ کرسکی حالانکہ اسے میڈیا کی کوریج ملتی ہے۔ مختاراں مائی کی مشرف دور میں آبروریزی کی گئی تھی لیکن جنرل صاحب کی حکومت میں خواتین کے معاملات کی مشیرنیلو فر بختیار نے اُس سنگین معاملے کو نظر انداز کردیا۔ ہمارے ملک میں تو ایسے واقعات خبر ہی نہیں بنتے، لیکن عالمی میڈیا کی طرف سے اس واقعے کو رپورٹ کرنے پر سب جاگ اٹھے۔
اس کے بعد ایک لیڈی ڈاکٹر شازیہ خالد کا کیس تھا۔ وہ بلوچستان کے شہر سوئی میں ایک پٹرولیم کمپنی میںملازم تھی۔ اُسے اُس ہوسٹل کے کمرے میں، جہاں وہ رہتی تھی، ریپ کیا گیا۔ تاہم اس کمپنی کے مالکوں اور مقامی پولیس نے کیس کو دبا دیا۔ مشرف اور اس کی کابینہ کے ارکان بھی اس کیس میں ہاتھ ڈالنے سے ہچکچا رہے تھے۔ حکومت دم سادھے کھڑی تھی جب غیر ت مند بلوچ قبائلیوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلہ سنا دیا اور سوئی جل اٹھا۔ اس کے بعد شازیہ کو وہاں سے جلدی سے نکال کر کسی دوسرے ملک منتقل کر دیا گیا۔ کیا یہ کہانی یہاں ختم ہوجاتی ہے؟ہر گز نہیں۔سندھ
کی سرزمین پر شازیہ خالد کے داد ا نے اُسے کاروکاری قرار دے دیا کیونکہ وہ ریپ ہو کر قبیلے کے لیے بدنامی کا باعث بنی تھی۔ اس کے برعکس مختاراں مائی کا کیس مختلف تھا۔ وہ پاکستان میں ہی رہی اور خود پر ہونے والے ستم کے خلاف قانونی جنگ لڑی۔ میڈیا کی وجہ سے وہ راتوں رات ویسی ہی شہرت پاگئی جیسی آج ملالہ کو ملی ہے۔ اُسے امریکہ آنے کی دعوت دی گئی ۔ وہاں اس نے خود پر ہونے والے ظلم اور پاکستانی معاشرے میں عورتوں پر توڑنے جانے مظالم پر بے دھڑک باتیں کیں۔ اس پر عالمی میڈیا نے اسے بے حد پزیرائی دی۔ اسے مغربی ممالک کی تنظیموں کی طرف سے بہت سے عطیات وصول ہوئے۔ اس رقم سے اُس نے ''مختاراں مائی سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن ‘‘ قائم کی۔ تاہم ستم یہ کہ جب آمنہ بی بی مختاراں مائی کی تنظیم کے پا س مدد کے لیے گئی تو اُسے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ اس پر مختاراں مائی کا کہنا ہے کہ اُن کی تنظیم اُسے رہائش فراہم کرسکتی تھی لیکن آمنہ چاہتی تھی کہ وہ آبروریزی کرنے والے مجرموں کو گرفتار کرنے میں اس کی مدد کرے اور یہ بات ان کی تنظیم کی پہنچ سے باہر تھی۔ اس پر آمنہ نے خود پر پٹرول چھڑکا اور آگ لگالی۔اس کے بعد حکومت کی آنکھیں کھلیں۔ پھر وزیر ِ اعلیٰ بھاگے بھاگے وہاں پہنچے اور اُس کے اہلِ خانہ کو پانچ لاکھ روپے پیش کیے ، لیکن اس رقم ، یا کسی بھی رقم ،سے آمنہ واپس اس دنیا میں نہیں آسکتی۔
اگر آمنہ بی بی مختاراں مائی جیسے مضبوط اعصاب کی مالک ہوتی تو وہ بھی اپنا کیس عالمی میڈیا کے سامنے پیش کرسکتی تھی۔ پھر شاید اُسے انصاف مل جاتا۔ بات یہ ہے کہ جب تک میڈیا کسی جرم کو کوریج نہ دے ، حکومت کو علم نہیں ہوتا اور جب تک حکومت، اور وہ بھی وزیر ِ اعظم یا کم از کم وزیر ِاعلیٰ بذات ِخود نوٹس نہ لیں، پولیس کارروائی کرنا حرام سمجھتی ہے۔ اب بھلا ریت کے صحرا میں پانی کے چند قطرے کس طرح ہریالی لا سکتے ہیں؟اس لیے ہم جس طرح کی گورننس کے عادی ہوچکے ہیں یا جس طریقے سے ہمیں انصاف ملتا ہے ، اس کے لیے ٹی وی کوریج ضروری ہے۔ دوسرا مشکل آپشن ریاستی نظم و نسق کو درست کرنا ہے کہ ارباب اختیار ایسا نظام وضع کریں کہ ہر کسی کو اس کی دہلیز پر انصاف مل سکے، لیکن اس طرح پھر حکمرانوں کی تشہیر نہیںہوتی اور نہ ہی ان کی خدا ترسی کے گن گائے جاتے ہیں ، چنانچہ ایسا نظام گیا بھاڑ میں...
یہ کم درجے کے انسانوں کے معاملات ایسے ہی چلنے ہیں، اس لیے واپس اعلیٰ درجے کے مور جس کی ہلاکت پر پولیس کی دوڑیں لگ گئیں، کی بات کرلیں۔ کوئی عجب نہیں کہ آئندہ بلّوں کو اپنے دانتوں اور پنجوں کا لائسنس حاصل کرنا پڑے کیونکہ اب قانون سازی لازمی ہوگی۔ لیکن قانون کا عام انسانوں سے کیا کاکام ؟ کچھ سال پہلے ایک اور عورت انصاف کے لیے مرگئی۔وہ شمائلہ تھی اور وہ فہیم کی بیوہ تھی۔ فہیم وہ شخص تھا جسے لاہور میں ریمنڈ ڈیوس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ امریکی حکومت نے مقتول کے ورثا کو خون بہا کے طور پر 1.4 ملین ڈالر ادا کیے اور اُس کے کچھ رشتے داروںکو امریکی شہریت بھی مل گئی۔ اس پر تمام اہل ِ خانہ خوش تھے سوائے شمائلہ کے ، کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ اُسے رقم نہیں، انصاف چاہیے۔ جب انصاف کی قیمت لگ جائے اور انسان ، اور وہ بھی ایک بیوہ کیا کرسکتی ہے۔ چنانچہ اُس نے زہر کھا کر خود کشی کرلی۔
آر سی ڈی روڈ پر ہونے والے حادثے میں درجنوں افراد جل کر راکھ ہوگئے کیونکہ ان میں ڈیزل سمگل ہورہا تھا اور اسے آگ لگ گئی۔ کیا حادثے سے پہلے کسی کوعلم نہ تھا کہ بسوں کی چھتوں پر جو ڈرم رکھے ہوتے ہیں ان میں سمگل شدہ تیل ہوتا ہے؟ ساغر صدیقی نے اسی لیے کہاتھا ؎
معبدوں کے چراغ گل کر دو
قلبِ انسان میں اندھیرا ہے
By Anjum Niaz dunya.com.pk
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *
Humanity, Religion, Culture, Ethics, Science, Spirituality & Peace
http://PeaceForumNet.blogspot.com
http://AftabKhan.blog.com
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *...
http://AftabKhan.blog.com
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *...
* * * * * * * * * * * * * * * * * * *